Urud column -مُحمد بن قاسم

مُحمد بن قاسم کیوں نہیں آرہا۔۔؟




 
                                                                       (محمد تحسین) 

مسلمان اکثر پوچھتے نظر آتے ہیں کہ برما اور دنیا کہ کئی دیگر علاقوں میں میں مسلمانوں پر بدترین ظلم کیا جارہا
 
ہے اب کوئی مُحمد بن قاسم کیوں نہیں آتا۔ عرض ہے کہ محمد بن قاسم ایک شخصیت کا نام نہیں کہ کہیں سے 

کوئی ایک نوجوان اٹھ کر مُحمد بن قاسم بن جائے گا۔ بلکہ محمد بن قاسم ایک نظریے کا نام ہے۔ اس نظریے کو 

طاقت کہتے ہیں۔ آج کا محمد بن قاسم امریکہ ہے جب دنیا میں وہ کہیں بھی اپنے شہریوں کے لیے خطرہ

محسوس کرتا ہے تو اپنی پوری طاقت سے اس علاقے پر چڑھ دوڑتا ہے اور اس کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ اُس دور
 
کا مُحمد بن قاسم اپنے مذہب کی ایک عورت کی فریاد پر دوڑا چلا آیا اور رستے میں پڑنے والی تمام طاقتوں اور
 
حکومتوں کو تہہ تیغ کرتا گیا۔ آج کے مُحمد بن قاسم یعنی امریکہ کو ہزاروں میل دور افغانستان میں ایک شخص

 مطلوب تھا تو وہ ہزاروں میل دور سے آیا اور رستے میں پڑنے والی ہر چیز کو تباہ کردیا۔ مُلا عمر کی حکومت کا

 خاتمہ کیا جس طرح مُحمد بن قاسم نے راجہ داہر کا تختہ الٹا تھا۔ چنانچہ مُحمد بن قاسم کہیں سے اچانک نازل

 نہیں ہوا کرتے ان کے پیچھے قوموں کی صدیوں کی محنت اور کردار ہوتا ہے۔ جب مسلمانوں کا کردار موجودہ امریکہ

 و یورپ والا تھا یعنی تحقیق و تعلیم تو مسلمان مُحمد بن قاسم ہوا کرتے تھے۔ پچھلے دو تین سو سالوں سے
 
مسلمانوں کا سارا زور ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے میں صرف ہورہا ہے جبکہ امریکہ اور یورپ میں
 
اس دوران تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے جارہے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج رقبے میں صوبہ سندہ

برابر ان کے ایک مُلک برطانیہ کا جی ڈی پی چھپن اسلامی ممالک کہ کُل جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ ان اسلامی

 ممالک میں سے کئی تیل کی قدرتی دولت سے مالا مال بھی ہیں۔ اس لیے کوئی مُحمد بن قاسم یا صلاح الدین

ایوبی اچانک کہیں سے نازل نہیں ہوگا بلکہ مسلمانوں کو محنت شاقہ سے مُحمد بن قاسم بننا ہوگا فی الحال
 
جس کے دور دور تک بھی کوئی امکانات نہیں. فتووں سے بچنے کے لیے قرآن پاک کی زبان میں ساری بات کو ایک
 
جملے میں سمیٹا ہوں کہ ‘‘اپنے گھوڑے (گھوڑا طاقت کی نشانی) تیار رکھا کرو۔‘‘۔ لیکن پہلے ہم آپس میں یہ تو تہہ

 کرلیں کہ ہم میں سے کون کون واجب القتل ہے، کون کافر ہے، کون مشرک وغیرہ وغیرہ۔ 

(محمد تحسین) 

تبصرے