نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں
Number of sex workers reached 15 million in Pakistan
پاکستان میں سیکس ورکرز کی تعداد 15لاکھ ہوگئی
پاکستان میں سیکس ورکرز کی تعداد 15لاکھ ہوگئی جبکہ لاہور میں تعداد ایک لاکھ سے اوپر چلی گئی۔ ان سیکس ورکر خواتین میںنہ صرف لوکل بلکہ بنگلہ دیش، بھارت، برما، افغانستان اور روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں۔
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ (IHRM) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جسم فروشی کے پیشے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان جسم فروش عورتوںمیں 44 فیصد خواتین غربت ،32فیصد دھوکے اور فریب، 18 فیصد جبر وتشدد،4 فیصد وہ خواتین جو انہی گھرانوں میں پیدا ہوئیں اور 2فیصد اپنی مرضی سے شامل ہیں۔ ان میں سے 41.8 فیصد خواتین 18 سے 25سال کی ہیں جبکہ 6.21 فیصد لڑکیاں 18سال سے کم عمر کی ہیں۔56.79 فیصد خواتین ان پڑھ ہیں اور 47فیصد سیکنڈری سکول کی تعلیم سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں جبکہ30 فیصد غیر شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ 70 فیصد شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔ ان خواتین میں نہ صرف لوکل بلکہ گزشتہ 10 برسوں میں بنگلہ دیش سے 5 لاکھ خواتین ،برما سے 20 ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئیں۔ دوسری طرف اس بے راہ روی کے نتیجے میں ایڈز جیسی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور اب تک80ہزار کے قریب افراد اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خواتین سیکس ورکرز کے مقابل جسم فروش لڑکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جن میں نو عمر بچوں کی زیادہ تعداد قابل تشویش ہے۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں ایک عام لڑکی اس پیشے میں25سے30 ہزار روپے کما تی ہے وہاں یہ لڑکے50سے70ہزار روپے کما لیتے ہیں۔
لاہور پولیس کے مطابق نہ صرف شہر میں جگہ جگہ جسم فروشی کے اڈے کھل گئے بلکہ نجی اور سرکاری اداروں میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جبکہ بڑی مارکیٹوں ، سڑکوں ، درباروں،باغوں ، پارکوں اور اہم علاقوں میں بھی چلتے پھرتے ایسے افراد کی کوئی کمی نہیں۔ 5 سال قبل شہر میں200 کے قریب قحبہ خانے تھے جن کی تعداد اب بڑھ کر 445 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس طرح لاہور میں 5 سال کے دوران جسم فروشی میں دوگنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور شہرمیں 1 لاکھ سے زائد جسم فروش خواتین اور لڑکے ہیں جن میں 12\13 سال کی عمر سے لیکر 40\45 سال تک کی عمر کے افراد شامل ہیں اور ان کی تعداد میں 100 سے لیکر 200 افرادتک کا ماہانہ اضافہ ہو رہا ہے۔
جسم فروشی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون(نائیکہ )نے بتایا کہ جسم فروشی میں معاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں ان میں ایسی خواتین بھی ہیں جو صرف 100 روپے میں اپنی عزت بیچ دیتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو اپنے آپ کو پیش کرنے کیلئے لاکھوں روپے وصول کر تی ہیں۔ غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہی ہیں اور ان کے بچے دو وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں جبکہ بعض خواتین نے پوش علاقوں میں عالیشان مکانات بنائے ہوئے ہیں اور ان کی ہلکی سی مسکراہٹ پر سونے چاندی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ کیسی بد قسمتی کی بات ہے کہ جہاں پر ہر چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے وہاں عورت کی عصمت سستی ہوتی جا رہی ہے۔چند سال پہلے تک جس معیار کی لڑکی 5000 روپے میں ملتی تھی اب اسی معیار کی لڑکی کی قیمت صرف ایک ہزار روپے ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ مہنگائی اور غربت کی وجہ سے اس پیشے میں لاتعداد لڑکیاں شامل ہو گئی ہیں۔کیونکہ مال اب زیادہ ہو گیا ہے اور گاہک کم پڑ گئے ہیں۔گاہک کم پڑ جانے کی وجہ بھی اس نے مہنگائی اور بےروزگاری کو قرار دیا اور بتایا کہ اب یہ کام صرف امیر زادوں کا رہ گیا ہے یا جو دو نمبر کمائی کے ذرائع رکھتے ہیں۔اب گاہکوں میں متوسط اور کم آمدنی والے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ورنہ پہلے کم آمدنی والے افراد بھی یہ شغل کر لیا کرتے تھے مگر اب ان کی جیب اجازت نہیں دیتی۔ اس نے بتایا کہ اس پیشے میں سامنے نظر آنے والی خواتین اور لڑکوں کے علاوہ پس پردہ بڑے بڑے افراد اورگروہ کام کر رہے ہوتے ہیںجن کے رکن مختلف طریقوں اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر انہیں اس کام کی جانب راغب کرتے ہیں اور اس گروہ کے افراد نوعمر بچوں اور بچیوں کو ورغلا کر اغوا بھی کر لیتے ہیں اوربعد ازاں انہیں زبردستی اس دھندے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب کشمیر اور دیگر علاقوں میں زلزلہ آیا تھا تب لاہور کے بعض بڑے کوٹھی خانوں کی مشہور خواتین زلزلہ زدہ علاقوں سے بے سہارا لڑکیوں کو ورغلا کر لاہور لے آئی تھیں جن میں سے بیشتر کو اسی کام پر لگا دیا گیا جبکہ اب سیلاب زدہ علاقوں سے بھی کئی لڑکیاں لاہور میں یہ کام کرتی ہیں۔
سیکس ورکرز کے حوالے سے کام کرنے والے ایک رکن نے بتایا کہ جسم فروشی میں اگرچہ ہیجڑوں کا بھی کردار ہے مگر موجودہ دور میں نو عمر بچوں کی شمولیت خاصی تشویش کی بات ہے۔کچھ عرصے سے سیکس ورکر لڑکوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں 14/15 سال کے لڑکوں سے لیکر 25/30 سال تک کے لڑکے شامل ہیں۔انھوں نے بتایا کہ لڑکوں کی جسم فروشی اس معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ انھوں نے برطانوی رائٹر Richard Francis Burton کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا جو 1842 میںایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہونے کے بعد بھارت میں آئے اور اس دوران مختلف شہروں میں تعینات رہے۔کراچی کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہ ”کراچی میںایک ایسا قحبہ خانہ موجود تھا کہ جہاں صرف لڑکے ہی ملا کرتے تھے اورافغان علاقوں میں کم عمر لڑکے کی دوستی کو برا نہیں سمجھا جاتا“۔ جبکہ اب تو تقریباً ہر شہر میں ایسے مخصوص علاقے موجود ہیں کہ جہاں پر لڑکے بطور سیکس ورکر کام کرتے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے انھوں نے مزیدبتایا کہ اس کام میں زیادہ تر اپر اور مڈل کلاس خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے شامل ہیں۔جو ویڈیوگیم شاپس، ریسٹورنٹس، کولڈ ڈرنک اور فاسٹ فوڈز سپاٹ پرملتے ہیں جبکہ لوئر کلاس خاندانوں کے لڑکے زیادہ تر گلشن اقبال، سبزی منڈی، کھارادر، لی مارکیٹ ، لانڈھی ، ملیر اور لیاری کے علاقوں میں ملتے ہیں۔ جیسے ان لڑکوں کے گاہک ہوتے ہیں ویسے ہی یہ لڑکے بھی اپنا شکار بس سٹاپوں، شاپنگ سنٹرز، سنیما، فلم اندسٹری، ہوٹل کی لابی، پارکس، ریلوے اسٹیشن، ہسپتال، سکولوں کالجوں کے گرا?نڈ، نجی عمارتوں کی سیڑھیاں اور لفٹیں ، تاریخی مقامات میں خود بھی ڈھونٹتے ہیں۔ ان لڑکوں میں، ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ گریجویٹ سطح کی تعلیم رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ یہ لڑکے 50 ہزار سے70 ہزار روپے تک ماہانہ کماتے ہیں جبکہ وہ لڑکے جو غیر ملکی سیاحوں وغیرہ کیلئے کام کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ کماتے ہیں جبکہ انگریزی زبان بھی بولنا جانتے ہیں۔ ان لڑکوں میںایک ایسی قسم ہے جو صرف ہوٹلوں کے کمروں تک اپنی خدمات پیش کرتے ہیں جبکہ دوسرے گاہک کے گھر یا اس کی جگہ پر بھی جاتے ہیں۔ چھوٹی عمر کے کچھ ایسے لڑکے بھی ہیں جو پارٹ ٹائم یہ کام کرتے ہیں اور دوران سفر کار میں یا رات کے وقت باغات اور دیگر جگہوں پر ہی اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ پارٹ ٹائم کام کرنے والوں میںزیادہ تر طالب علم، بطور سیلز مین کام کرنے والے لڑکے،ہوٹل اور گیراجوں میں کام کرنے والے لڑکے شامل ہیں جو مزید پیسوں کے حصول کیلئے کام کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے لڑکے بھی موجود ہیں جو صرف یہ کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کو کسی جگہ پر باآسانی لے جا سکتا ہے شاید اسی سہولت کی وجہ سے لڑکوں کے کام کو فروغ ملا۔
کراچی کی سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ کے ریجنل پرموشن منیجر سلام دریجو کا کہنا ہے کہ اگرچہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیمیں تو بہت ہیں مگر خصوصاً سیکس ورکر بچوں کے حوالے سے کوئی خاص کام نہیں ہو رہا۔ ابھی تک شہر میں اس پیشے سے منسلک بچوں کی حتمی تعداد کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکا کیونکہ ان میں30ہزار سے زائد سٹریٹ چلڈرن ) یتیم، بے سہارا، گھروں سے بھاگے ہوئے) بچے بھی شامل ہے جبکہ لوکل لڑکوں کی بھی کمی نہیں۔اس کام سے منسلک ہونے والے لڑکوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر لڑکے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے ساتھ پہلے کسی نے زبردستی یہ عمل کیا ہوتا ہے جو بعد ازاں اس کام کو پیسے کے حصول کیلئے شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے مختلف بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں مگر اس کی بہتری کیلئے کوئی کام نہیں کیا جا رہا حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔
شمائلہ نامی ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ(IHRM) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس پیشے سے منسلک کل خواتین میں سے 44 فیصد غریب ہیں اور56.69 فیصد ان پڑھ ہیں جن کی ضروریات زندگی ہی بمشکل پوری ہوتی ہیں اور بیماری کی صورت میں اپنا علاج نہیں کرا سکتیں اور نہ ہی بیماری سے بچا? کے طریقوں سے واقف ہے۔انھوں نے کہا کہ اب چونکہ یہ کام کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے تو اس حوالے سے دیگر تنظیموں کو چاہیے کہ وہ آگے آئیں اور کراچی کی طرز پر ایسی ورکشاپس اور سیمینارز کراوئیں کہ جن میں ان سیکس ورکرز کو محفوظ سیکس کے حوالے سے تعلیم دی جا سکے تاکہ ایڈز اور دیگر موذی امراض سے بچا جا سکے۔ کیونکہ 1987 ئ میں پاکستان میں ایڈز کا پہلا مریض رپورٹ کیا گیا تھا جبکہ اب 70 سے80 ہزار افراد ایڈز میں مبتلا ہیں اور یہ بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ برس اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایف پی اے اور مقامی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے منعقد کردہ اس ورکشاپ میں خواتین سیکس ورکرز کو محفوظ جنسی طریقوں سے آگاہی دی گئی تھی۔ ورکشاپ میں شرکت کرنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں اس ورکشاپ میں شرکت کرنے سے پہلے ان طریقوں سے اتنی زیادہ آگاہی نہیں تھی اور یہ ورکشاپ ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی ہے۔
یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ یعنی یو این ایف پی اے کے پراجیکٹ افسر ڈاکٹر صفدر کمال پاشا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان کے پاس پورے پاکستان کے مکمل اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اس وقت ایک سروے کے مطابق کراچی میں ڈیرھ لاکھ سے زیادہ اور لاہور میںایک لاکھ سے زائد خواتین بطور سیکس ورکرز کام کررہی ہیں اور ان میں محفوظ جنسی طریقوں کے بارے میں آگاہی سے ایڈز کے پھیلاو میں بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک مسلم ملک یعنی بنگلہ دیش میں اس کاروبار کو قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن پاکستان میں اسے قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ورکشاپ کو منعقد کرنے سے پہلے یہ خدشات تھے کہ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خوف سے سیکس ورکرز اپنے آپ کو ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے شرکت نہیں کریں گی۔لیکن اس ورکشاپ کے اختتام پر ایک سو سے زیادہ تعداد میں سیکس ورکرز کی شرکت سے ہماری امیدوں سے بڑھ کر حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن خواتین سیکس ورکرز نے یہاں محفوظ جنسی طریقوں کے بارے میں آگاہی حاصل کی ہے امید ہے وہ اپنے ساتھ کام کرنے والیوں کو بھی اس بارے میں آگاہی دیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ورکشاپ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اگلی ورکشاپ لاہور میں منعقد کی جائے گی اور پھر اسی موضوع پر اگلے برس قومی کنونشن بھی منعقد کرنے کا ارادہ ہے جس میں ملک بھر سے سیکس ورکرز کو مدعو کیا جائے گا۔
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ کے ایک سروے کے مطابق گزشتہ 10 برسوں میں بنگلہ دیش سے 5 لاکھ خواتین ،برما سے 20 ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئیں ان میں سے متعدد خواتین ایسی ہیں کہ جنہوں نے اس پیشہ کواپنی مرضی سے اپنایا جبکہ اکثریت ایسی خواتین کی ہے کہ جن کو ان کی مجبوریاں اس پیشہ میں لانے کا سبب بنیں۔ان لڑکیوں کو لانے والے گروہوں کے ارکان بنگلہ دیش اور برما سے نوجوان لڑکیوں کو ملازمت اور مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر لاتے ہیں اوربعد میںانھیں ملک کے مختلف شہروں میں فروخت کر دیا جاتا ہے اور یوں یہ لڑکیاں بازار حسن کی زینت بن جاتی ہیں۔لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بعض ایسے کوٹھی خانے موجود ہیں کہ جہاں پر غیر ملکی خصوصاً روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین موجود ہیں۔کراچی ،لاہور اورحیدرآباد کے بعد اب پشاور میں غیر ملکی سیکس ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔جب سے افغانستان میں امریکی اور یورپی فوجوں نے ڈیرے ڈالے ہیں اور کابل میں ڈالروں کی بھرمار کے علاوہ کلب قائم ہوئے تب سے امریکہ ،مشرقی یورپ، یورپ اور روسی ریاستوں کی سیکس ورکرز خواتین نے کابل کا رخ کر لیا۔
جسم فروشی سے متعلق کام کرنے والی ایک تنظیم کے رکن نے پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی جسم فروشی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں غربت و افلاس کے مارے لوگ کئی برسوں سے متواتر مہنگائی کی صعوبتیں برداشت کرتے آ رہے ہیںاور اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو رہے ہیں۔ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جہاں پر بنیادی ضروریات زندگی کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے وہاں امیر اور غریب کے درمیان بھی تیزی سے ایک خلیج پیدا ہو رہی ہےجس وجہ سے نو جوان لڑکے مجبور ہو کر اپنی مالی حالت بدلنے کے لیے چوری چکاری اور ڈاکے ڈالنے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح جوان لڑکیاںبھی پیسے کمانے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنے جسموں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں۔اس بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے دن بدن اس پیشے سے وابستہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے مہنگائی کے حوالے سے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں غربت کے حوالے سے پانچویں اور دنیا میں ایک سو ایک ویں نمبر پر تھا۔ پچھلے سال تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 5.5 فی صد اور بے روزگارافراد کی تعداد 29 لاکھ تھی۔ملک کی 22.6 فیصد آبادی یومیہ سوا ڈالر سے کم آمدنی پر زندگی بسر کررہی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے سات ممالک میں سے پاکستانی عوام کو بدترین مہنگائی کا سامنا ہے جس کے باعث عوام کیلئے زندگی کی گاڑی چلانا ممکن نہیں رہا۔ سفید پوش عوام کا جینادوبھر ہوکر رہ گیا ہے۔
ایک دیگر تنظیم کی رکن کا کہنا ہے کہ جسم فروشی میں شامل خواتین کی 3اقسام ہیں۔ ایک وہ جنہیں دھوکے، فریب یا زبردستی اس پیشے میں لایا جاتا ہے، اسی قسم میں غربت کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری خواتین وہ ہوتی ہیں کہ جو ایسے ہی گھرانوں میں پیدا ہوتی ہیں اور تیسری وہ قسم ہے کہ اپنی مرضی سے یہ پیشہ اختیار کر لیتی ہیں۔ انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ پہلی قسم کی لڑکیاں زیادہ تر قحبہ خانوں اور کوٹھی خانوں میں ملتی ہیں جبکہ دوسری قسم کی لڑکیاں ہیرامنڈی سے تعلق رکھنے والے خاندانوں سے ہوتی ہیں اور ان کی تربیت ان کی والدہ، خالہ یا خاندان کی کوئی اوربڑی عمر کی عورت کرتی ہے۔تیسری شوقیہ قسم کی لڑکیاں اکثر سڑکوں اور بس سٹاپوں پر ملتی ہیں جنہیں کال گرل بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ تعلق بننے کے بعد انھیں ٹیلی فون پر بھی بلایا جا سکتا ہے جبکہ یہ اپنی دوسری دوستوں کو بھی متعارف کراتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کال گرل قسم کی لڑکیوں کا سلسلہ اب بہت وسیع ہو چکا ہے۔
انھوں نے موبائل سیکس ورکرز کی دیگر اقسام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ان میں زیادہ ترانفرادی طور پر کام کرنے والی لڑکیاں شامل ہوتی ہیں جبکہ اجتماعی گروہ بھی موجود ہیں۔انھوں نے بتایا کہ لاری اڈوں ، ٹرک اڈوں اور ویگن اڈوں پر کام (ڈرائیوروں اور اڈے کے دیگرملازمین کو بطور سیکس ورکر اپنی خدمات پیش کرنا ) کرنے والی سیکس ورکرز میں زیادہ تر لاہور کے گردو نواح کے علاقوں ، مریدکے، شرقپور،پتوکی اور قصور وغیرہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں شامل ہیں، جنہیں رات بھر بھی ساتھ رکھا جا سکتا ہے جبکہ مارکیٹوں،ہسپتالوں ، کچہریوں اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی عموماً شہر سے ہی تعلق رکھتی ہیں اور انھیں شام تک اپنے اپنے گھروں کو واپس جانا ہوتا ہے۔ موبائل سیکس ورکرز کی ایک تیسری قسم کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس قسم کی لڑکیاں کئی کئی دن کیلئے جانے پر تیار ہوتی ہیں۔ جیسے تفریحی مقامات پر انھیں کئی ہفتوں کیلئے بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ بیرون ملک جا کر اپنی خدمات پیش کرنے والی لڑکیاں زیادہ تر فلم انڈسٹری سے منسلک ہیں جو مختلف طائفوں کی صورت میں بیرون ملک بھی جاتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ گرمیوں کی آمد آمد ہے اور کچھ ہی عرصے میں مزید گرمی بڑھنے سے تفریحی مقامات کیلئے بکنگ شروع ہو جائے گی جبکہ بیشتر گروپ اپنی لڑکیوں کے ساتھ وہاں شفٹ ہو جائیں گے۔
سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میںجسم فروشی کے حوالے سے پولیس ذرائع نے بتایا کہ نہ صرف دیگر سرکاری اور نجی اداروں بلکہ لاہور پولیس میں بھی خواتین سیکس ورکرز موجود ہیں۔ لیڈی پولیس کی کچھ اہلکار اس دھندے میں شامل ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق لیڈی پولیس انسپکٹر شافیہ بخت کواس کاروبار کی سرغنہ کہا جاتا ہے،جس نے مبینہ طور پر دو لیڈی پولیس کانسٹیبلز کو ’ڈیوٹی‘ کے بہانے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک بلڈنگ انسپکٹر رانا شفقت شہزاد کے پاس بھیجا۔جب رانا شفقت اور اس کے ساتھیوں نے مبینہ طور پرلیڈی پولیس کانسٹیبل کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو انہوں نے مزاحمت کی جس پر لڑکیوں کو چھوڑ دیا گیا لیکن ا نہیں اس شرط پرجانے دیا گیا کہ وہ اس معاملے کو نہیں اچھالیں گی۔ تاہم لیڈی کانسٹیبل (ز) نے تھانہ سبزہ زار میں ان افراد کے خلاف درخواست دے دی اور ایس ایچ او نے اس واقعہ کی اطلاع اعلیٰ افسران تک پہنچائی۔جس پر لاہور پولیس کے آپریشنل انچارج شفیق احمد نے جنسی دھندے میں ملوث ہونے کے الزام میں انسپکٹر شافیہ بخت سمیت چار کانسٹیبلز کو نوکری سے معطل کردیا۔
ہیرا منڈی لاہور کی طوائفوں کی تنظیم کے ایک سابقہ رکن نے لاہور میں سیکس ورکرز کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ لاہور میں موجودہ بازار حسن(ہیرا منڈی) سینکڑوں سال قبل قائم ہوا۔ اس بازار میں شاہی دربار ، وزرا اور امرا کی محفلوں میں لوک گیت گانے اور روایتی رقص پیش کرنے والی طوائفیں اور ان کے سازندے رہا کرتے تھے یہاں بسنے والے یہ خاندان بڑے مہذب اور با اخلاق ہوتے تھے اور ان کے پاس شہر کے رئیس اپنی اولادوں کو تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا کرتے تھے.جبکہ جسم فروش عورتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع موجودہ لنڈے بازار میں رہا کرتی تھیں۔ یہ بازار سکھوں کے دور حکومت تک قائم رہا۔ سکھاشاہی کے دوران اس بازار میں بیٹھی چندخواتین کی وجہ سے جب لاہور میںہندو مسلم فسادات ہوئے تو کشمیر کے مسلمان راجہ نے لنڈا بازار کی تمام عمارتیں خرید لیں اور یہاں سے تمام افراد کو نکال دیا گیاچنانچہ یہاں پر آباد خاندان پرانی انارکلی کے علاقے میں منتقل ہو گئے مگر انگریز دور حکومت میں یہاں قائم ہونے والی فوجی بیرکوں کی وجہ سے حکومت نے ان سے یہ علاقہ بھی خالی کروا لیا جس پر ان میںسے متعدد خاندان ہیرامنڈی میں منتقل ہو گئے اس طرح ہیرامنڈای میں بھی جسم فروشی کے اڈے قائم ہو گئے۔ یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا مگرجب جنرل ضیا ئ الحق کے دور میں بازار حسن کو بند کر دیا گیا اور یہاں پر کسی بھی قسم کی پرفارمنس ممنوع قرار دے دی گئی تو یہاں کے رہنے والے خاندان شہر کے مختلف علاقوں میں شفٹ ہو گئے اور یوں ایک محضوص علاقے میں قائم ہیرامنڈی پورے شہر میں پھیل چکی ہے اور اب یہاں نہ صرف لاہور بلکہ فیض آباد، پتوکی اور حیدرآباد کے کئی خاندان بھی شفٹ ہو چکے ہیں۔
پیپلز لائرز فورم لاہور کے صدر شاہد حسن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ جسم فروشی دنیا کا ایک قدیم پیشہ ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ انسان کے اندر حیوانی جبلت اور نفسانی خواہش کی موجودگی ہے۔ اس پیشے کو جہاں پر بعض لوگ اپنی مرضی سے اپناتے ہیں وہاں پر خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں جبر و استحصال کے سبب اس پیشے میں شامل ہونا پڑتاہے۔اس کی دیگر وجوہات میں نہ صرف غربت اور بے روزگاری ہے بلکہ تعلیم کی کمی، معاشرے کی بکھرتی ہوئی انسانی قدریں ، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم، طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ، آبادی میںبے پناہ اضافہ ، مردوں کا خواتین پر بے جا جبر وتشدد ، قانون کی عدم حکمرانی ، اسلامی تعلیمات سے دوری ، بے راہروی ، ڈش اور انٹر نیٹ تک عام رسائی شامل ہے۔ انھوں نے بتایا کہ امتناع زنا حدود آرڈیننس 1979 ئ کے تحت بطور سیکس ورکر اپنی خدمات پیش کرنا جرم ہے جبکہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 377 کے تحت لڑکوںسے سیکس کرنا بھی جرم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ سیکس ورکرز سے متعلق ہر ملک اور معاشرے کے مختلف اصول و ضابطے ہیں بعض قوموں نے اسے قبول کر کے ان سے متعلق قانون وضع کر لیے اور انھیں کچھ حقوق بھی دیے جبکہ دیگر ممالک میں سخت سزائیں موجود ہیں مگرقانون کی موجودگی یا عدم موجودگی کی پروا کیے بغیر اس پیشہ کے افراد تمام دنیا میں موجود ہیں۔
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ، سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ، یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ اور لاہور پولیس کی جنوری 2010 ئ کی مرتب کردہ رپورٹس میں دیے گئے اعداد و شمار کی روشنی میں پاکستان بھر ، کراچی اور لاہور میں جسم فروشوں کی تعداد اور قحبہ خانوں کی تفصیل
پاکستان میں کل تعداد 15 لاکھ سے زائد خواتین سیکس ورکر کی کم ازکم آمدنی 25 ہزار روپے ماہانہ میل سیکس ورکر کی کم ازکم آمدنی 50 ہزار روپے ماہانہ
کراچی ڈیرھ لاکھ سے زائد کراچی جسم فروش لڑکے . 30 ہزار سے زائد
لاہور ایک لاکھ سے زائد لاہور کل قحبہ خانے 445
ماڈل ٹاﺅن ڈویڑن میں 128‘ صدر میں 96‘ سٹی میں 75‘ اقبال ٹا?ن میں 52‘ سول لائن میں 52 اور کینٹ ڈویڑن میں 42 ، جبکہ19موبائل قحبہ خانے شامل ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں